The Prime Pen

سندھ طاس معاہدے کی کہانی

48

کبھی سوچا ہے، اگر دو دشمن ملک ساتھ ساتھ رہتے ہوئے بھی خاموش اور پُرامن رہیں، تو اُس کے پیچھے کوئی بہت بڑی وجہ ہوتی ہے؟ یا پھر وہ کسی ایک بات پر آج تک ایک دوسرے کا ساتھ دے رہے ہوں، تو وہ کوئی بات عام بات نہیں ہو گی؟ بلکہ اس کے پیچھے ایک بہت بڑا وعدہ بھی ہو سکتا ہے۔

1947 میں جب پاکستان اور بھارت الگ ہوئے، تو صرف زمین کا ٹکڑا حاصل نہیں کیا تھا، بلکہ پانی بھی بٹ گیا تھا۔ وہی دریا جو پہلے برصغیر میں آزادی سے بہتے تھے، اب ایک ملک سے نکل کر دوسرے ملک کو سیراب کرنے لگے تھے۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ سارے دریا بھارت سے نکلتے تھے، لیکن وہ پاکستان کی زمین کو پانی دیتے تھے۔

پھرایک دن 1948 میں بھارت نے اچانک پاکستان کا پانی روک دیا۔ یہ پاکستان کے لیے چونکنے والی بات تھی۔ اگر بھارت پانی روکتا رہتا، تو پاکستان کی زمینیں سوکھ جاتیں، کھیت بنجر ہوجاتے، اور لوگ یقینا بھوکے مر جاتے۔
اسی لیے دونوں ممالک کے درمیان بات چیت شروع ہوتی ہے۔ یہ بات چیت ایک دن یا ایک مہینے کی نہیں تھی، بلکہ پورے نو سال تک چلتی رہی۔ پھر 1960 میں آخر کار ایک معاہدہ ہوا، جسے آج ہم "سندھ طاس معاہدہ" یا "Indus Waters Treaty" کہتے ہیں۔

یہ معاہدہ پاکستان، بھارت اور ورلڈ بینک کی موجودگی میں ہوا۔ اس میں طے پایا کہ چھ دریا آپس میں تقسیم کیے جائیں گے۔ تین دریا راوی، بیاس اور ستلج بھارت کو ملے، اور تین دریا سندھ، چناب اور جہلم یہ پاکستان کو دیے گئے۔ بھارت کو اجازت ملی کہ وہ پاکستان کے دریاؤں سے تھوڑا بہت پانی بجلی یا ذاتی استعمال کے لیے لے سکتا ہے، لیکن وہ پانی کا بہاؤ نہیں روک سکتا۔
یہ معاہدہ ہر سال دونوں ملکوں کے نمائندوں کی ملاقاتوں سے چلتا ہے۔ اگر کوئی مسئلہ ہو، تو پہلے بات چیت، پھر آخر میں عالمی بینک کے ذریعے اس کو حل کیا جا سکتا ہے۔

یہ معاہدہ اقوام متحدہ میں بھی درج ہے۔ لیکن افسوس، بھارت نے کئی بار اس معاہدے کی خلاف ورزی کی۔ کبھی پانی روکا، کبھی بغیر اجازت ڈیم بنایا، اور کبھی کھلے لفظوں میں کہا کہ وہ معاہدہ ختم کر دے گا۔
2016 میں اُڑی حملے کے بعد بھارت نے کہا: “خون اور پانی ساتھ نہیں بہہ سکتے۔” 2019 میں پلوامہ حملے کے بعد بھی بھارت نے یہی بات دہرائی۔ 2023 میں بھارت نے کہا کہ وہ معاہدہ ختم کرنا چاہتا ہے، کیونکہ پاکستان نے کچھ ڈیموں پر اعتراض کیا تھا۔ 2025 میں بھارت نے ایک بار پھر پانی کو ہتھیار بنانے کی کوشش کی۔ اس بار مسئلہ وادیٔ پاہلگام (Pahalgam) سے شروع ہوا۔ وہاں بھارت نے اچانک ایک نیا منصوبہ بنایا . ایسا منصوبہ جس سے پاکستان کے دریاؤں میں پانی کو مزید روکا جا سکتا تھا۔ اور پھر کیا؟ پاکستان نے آواز اُٹھائی، کہا: "یہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہے!" مگر بھارت نے اِس بار بھی وہی پرانی زبان بولی "خون اور پانی ساتھ نہیں بہہ سکتے۔" چند دنوں میں ایک طرف بھارت جنگ کی دھمکیاں دینے لگا، تو دوسری طرف پاکستان نے اقوامِ متحدہ، عالمی عدالتِ انصاف اور عالمی بینک کو خط لکھ دیے۔ دونوں ممالک کے میڈیا پر جنگ کی باتیں ہونے لگیں۔ لوگ ڈرنے لگے، دل کانپنے لگے۔
مگر قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔
عین اُس وقت جب لگ رہا تھا کہ پانی کی لڑائی، خون کی لڑائی میں بدل جائے گی ایک خاموشی سی چھا گئی۔ دونوں طرف کے ہوش مندوں نے قدم پیچھے کھینچ لیے۔ ایک "عارضی جنگ بندی" (Ceasefire) کا اعلان ہوا۔ دونوں ملکوں کے نمائندے دبئی میں خفیہ ملاقات میں بیٹھے۔ اور ایک بار پھر پانی کو بہنے دیا گیا، جنگ کو نہیں۔

یہ کہانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ دشمنوں کے بیچ بھی کچھ وعدے اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ نسلیں گزر جاتی ہیں، مگر وہ وعدے بہتے رہتے ہیں جیسے دریا، جو رکونے سے بھی روکتےنہیں۔
سویرا محبوب

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x