The Prime Pen

قرار دادِ مقاصد حاکمیتِ الٰہی کا آئینی طور پر اعلان

36

پاکستان ایک سچا خواب تھا۔ یہ تو ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ اِیک خواب کو علامہ اقبال نے دیکھا، اور قائداعظم محمد علی جناح  نے اسے حقیقت کا رنگ دیا۔ پاکستان کے بننے کی بنیاد صرف زمین کا حاصل کرنا نہیں تھا، بلکہ اس کی سب سے بڑی وجہ ایک اسلامی نظام کا قائم کرنا تھا۔ ہمارا مقصد ایک ایسا معاشرہ بنانا تھا جہاں ثقافت، رسم و رواج اور زندگی اسلام کے مطابق ہو۔ اسی لیے ہم  نے پاکستان کو کسی کاغذ یا وقتی جذبے کے طور پر حاصل نہیں کیا۔ ہم نے یہ ملک ایک سوچ اور نظریے کو سامنے رکھ کر بنایا تھا ۔ ایک ایسا نظریہ جس میں اللہ کی حاکمیت، عدل، اور رحم شامل ہو۔ جب پاکستان وجود میں آیا تو اس کی روح میں اسلام بسا ہوا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ 1949 میں ہمارےرہنماؤں  نے ایک فیصلہ کیا۔ انہوں  نے ایک ایسی دستاویز منظور کی جسے ہم "قراردادِ مقاصد" کہتے ہیں۔

اس قرارداد میں کہا گیا:

پاکستان میں حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کی ہوگی، اور ریاست اپنے تمام اختیارات اللہ کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرے گی، عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے۔ یہ صرف الفاظ نہیں تھے، بلکہ قوم کا اللہ سے ایک عہد تھا۔یہی قرارداد، کئی سال بعد 1985 میں آئین پاکستان کا مستقل حصہ بنائی گئی، جسے ہم آج آرٹیکل 2A کے نام سے جانتے ہیں۔ اسے آئین کا دل بنا دیا۔(substantive part)بنا دیا گیا آرٹیکل 2A یہ اعلان کرتا ہے کہ پاکستان میں قوانین قرآن و سنت کے مطابق ہوں گے۔ کوئی قانون اسلامی اصولوں کے خلاف نہیں بنایا جا سکتا ۔ریاست/گورنمنٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو ایسا ماحول دے جہاں وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزار سکیں۔

یہ قرارداد ہمیں بتاتی ہے کہ پاکستان کا راستہ صرف ترقی، یا معیشت نہیں، بلکہ اللہ کے بتائے ہوئے اصولوں پر چلنے سے ہی کامیابی اور انصاف حاصل ہو سکتا ہے۔ آج اگر ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان ترقی کرے، عدل ملے، اور معاشرہ پُرامن ہو — تو ہمیں واپس آرٹیکل 2A کی روح کو سمجھنا ہو گا۔

سویرا محبوب

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x